غروبِ محبت کی کہانی -
رات بھر مجھے نیند نہیں آئی،پہلی بار نہیں آئی۔
”عفان کہاں ہے؟“ میں نے کالج جاتے ہی قدسیہ سے سب سے پہلے اسی کا پوچھا۔
”کل بتا رہا تھا کہ کچھ کام ہے اسے… اس لئے آج نہیں آیا۔“
”اُف… عفان کو آج کالج آنا چاہئے تھا کل مجھ سے مل کر آج وہ چھٹی کر سکتا ہے… لیکن اس نے کر لی،مجھے اچھا نہیں لگا… مجھے کچھ بھی اچھا نہیں لگا “قدسیہ سے عفان کی باتیں کی اور وہ اس کی باتیں کرتی ہی چلی گئی جیسے اسی انتظار میں تھی کہ کوئی اُسے عفان کے ذکر پر پر اُکسائے۔
سینئرز کے بھونڈے مذاق سے میری آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے میری بیک پر فول چپکا دیا تھا اور مجھے معلوم بھی نہیں ہوا… جب احساس ہوا تو میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ کوئی دوست،کلاس فیلو بھی نہیں تھی وہاں… دل چاہ رہا تھا اتنے سارے لوگ جو مل کر قہقہے لگا رہے ہیں ٹھیک انہی کے سامنے بیٹھ کر رونا شروع کر دوں… میں رو ہی پڑتی اگر عفان میرے پاس نہ آتا،اس نے مجھ سے لائبریری کا پوچھا،میں خود حواس باختہ تھی اُسے کیا بتاتی۔
”کیوں نہ ہم مل کر لائبریری ڈھونڈیں؟ اس نے پوچھا۔“
اس کا انداز اتنا اچھا تھا کہ وہ مجھے وہاں غنیمت لگا،میں اس کے ساتھ چلتی لائبریری آ گئی۔
”کسی بھی مذاق کو اتنا دل پر نہیں لیتے کہ اس کیلئے آنسو ضائع کئے جائیں… لائبریری میں بیٹھ کر خود کو ریلیکس کریں،میں امید کرتا ہوں کہ ہم دوبارہ اچھے ماحول میں ملیں گے۔“
”پھر…؟؟ “آج سے پہلے میں نے کبھی قدسیہ کی تفصیلی کہانیوں پر ”پھر“ جیسا سوال نہیں کہا تھا۔
اگلے دن میں کالج نہیں گئی اور تیسرے دن وہ مجھے ڈھونڈتا میرے پاس آیا… اس نے مجھے اپنا دوست بنا لیا۔
عفان کے دوست بہت کم تھے… ان میں سے ایک قدسیہ تھی مگر قدسیہ ہی کیوں؟
دو سال تک جب میں عفان کے قصے سنتی رہی تھی یا یوں کہنا چاہئے کہ ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکالتی رہی تھی اس وقت مجھے کوئی دلچسپی نہیں تھی یہ جاننے میں کہ آخر قدسیہ ہی عفان کی دوست کیوں؟ وہ قدسیہ کے ساتھ ہی کیوں وقت گزارتا ہے… اسے ہی کیوں اپنے نوٹس دیتا ہے… اسی کی پڑھائی میں اتنی مدد کیوں کرتا ہے؟
فرینڈ شپ ڈے پر عفان نے قدسیہ کو اپنے ہاتھوں سے بنی ایک آئل پینٹنگ گفٹ کی تھی،قدسیہ مجھے دکھانے کیلئے وہ پینٹنگ میرے کالج لائی تھی۔
نخلستان میں ایک چھوٹا سا گھر بنا ہوا تھا،گھر کے پیچھے سورج کی کرنیں اسے روشن کر رہی تھیں۔ مجھے کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی اس گفٹ میں جو قدسیہ کو ملا تھا اور نہ ہی یہ جاننے میں کہ عفان نے اسے خود بنایا ہے تو کیوں؟ اور بنا کر اسے ہی کیوں دیا ہے؟
قدسیہ تو پینٹنگ پر انگلی رکھ رکھ کر اس کی تفصیلات بیان کر رہی تھی اور خوش بھی بہت تھی تو اب مجھے یاد آیا کہ وہ دیا جانے والا نخلستان اس عفان کا تھا۔
یادداشت کی یہ یاد مجھے کچھ اچھی نہیں لگی… قدسیہ نے بھی عفان کو گفٹ دیا تھا مجھے دکھا کر دیا تھا… اور عفان نے اسی کا دیا فرینڈ شپ بینڈ پہن کر رکھا تھا۔
آنے والے دنوں میں،میں نے خود کو عفان کا جائزہ لیتے پایا،وہ صرف بولتا نہیں تھا بلکہ میرے بولنے پر اصرار بھی کرتا تھا وہ خاص طور پر مجھ سے مخاطب ہوتا تھا۔
”حوریہ! حور… یہ تو جنت میں نہیں ملیں گی…“ کہہ کر وہ شرارت سے ہنسنے لگا۔
”زمین پر بھی مل سکتی ہیں“ میں نے ہاتھ سے سارے بال سمیٹ کر انہیں بائیں شانے پر سامنے پھیلا لیا،میں نے محسوس کیا کہ عفان نے دلچسپی سے میری بھوری آنکھوں اور بھورے بالوں کو دیکھا… وہ زمینی حور کو دیکھ رہا تھا۔
”تمہارے معاملے تک تو ٹھیک ہی ہے کہ زمین پر بھی مل سکتی ہیں“ کتابیں سمیٹ کر وہ کلاس لینے چلا گیا۔ غیر ارادی طور پر میں نے اسے دور تک جاتے دیکھا۔
”کیا ہوا؟“ قدسیہ نے میری نظروں کا تعاقب کیا” عفان کی بات بری لگی؟“
”نہیں بالکل نہیں۔“
”تمہیں عفان کی بات بری لگ ہی نہیں سکتی وہ ایسی بات کرتا ہی نہیں جو بری لگے۔“
قدسیہ شاید میری اس کوفت کی وجہ سے کہہ رہی تھی جو کالج میں مجھے اس کی ہائے ہیلو فرینڈز سے ہوتی تھی،ایک ہاتھ سے بالوں کو سہلاتے ہوئے میں قدسیہ کی طرف دیکھنے لگی۔
مجھے معلوم ہو رہا تھا کہ قدسیہ کس حد تک عفان کو جانتی ہے،وہ کیا کہہ سکتا ہے کیا نہیں،قدسیہ کو معلوم تھا،ان دونوں میں بہت اچھی دوستی تھی جیسے دو پکی سہیلیاں ہوں۔
اپنے اپنے فارغ وقت میں ہم ایک دوسرے کے ساتھ ہوتے،کبھی میں اور قدسیہ،کبھی میں اور عفان،کبھی عفان اور قدسیہ اور کبھی ہم تینوں،ان تین لوگوں کے گروپ میں کوئی لیڈر نہیں تھا،تینوں ہی بولتے تھے… تینوں کو ہی سنا جاتا تھا… وہ ایک سنہری وقت تھا… ہم تینوں ہی خوش،بے فکرے اور ایک دوسرے کے ساتھ تھے،اس وقت نہ کوئی حاکم تھا نہ ہی محکوم… اگر کوئی محکوم ہوتا تو وہ میں ہوتی… عفان کی۔
قدسیہ آج بھی بولتی تھی تو میں ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیتی تھی مگر عفان کا کہا ایک ایک لفظ مجھے یاد رہتا تھا۔ وہ قدسیہ سے بھی زیادہ میری پڑھائی میں میری مدد کرتا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ میں کہاں کہاں پڑھنے میں کمزور ہوں… میں اکثر اسے پڑھائی کے بہانے فون کرتی رہتی تھی۔ حتیٰ کہ رات گئے دو تین بجے بھی،اگر میرا دل چاہ رہا ہوتا اس کی آواز سننے کیلئے تو میں وقت کی پرواہ کئے بغیر اسے فون کر دیتی تھی،میں یہ نہیں سوچتی تھی کہ میں یہ کیوں کر رہی ہوں،مجھے یہ معلوم تھا کہ مجھے یہ کرنا ہے۔ وہ نیند سے جاگتا تو بھی مجھ سے دس پندرہ منٹ ضرور بات کرتا،اس کی نیند میں ڈوبی آواز مجھ پر نشہ سا طاری کر دیتی… میرا دل چاہتا میں اسے سنتی ہی جاؤں۔
...................